We are not against constitutional way of new provinces : Asfand Yar Wali
آئینی طریقے سے صوبے کی تقسیم کیخلاف نہیں ، اسفند یار ولی
اسلام آباد۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ آئینی طریقے سے صوبے کی تقسیم کیخلاف نہیں ہیں، صوبوں کی تقسیم کی بات کرنے والوں کے اصل عزائم سے واقف ہیں جنہیں کسی صورت پورا نہیں ہونے دیا جائے گا، ایم کیو ایم کہتی ہے کہ بڑی عید چھوٹی عید سے پہلے آتی ہے، صوبوں کی تقسیم بارے آئین میں طریقہ کار موجود ہے لیکن قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد غیر آئینی تھی، صوبوں کی تقسیم کی بات کرنے والوں کا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں کونسلر تک کا کوئی امیدوار نہیں ہے۔ وہ جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ جو دن ایجنڈے کیلئے مختص ہوتا ہے اس پر بحث کی جانی تھی اور بحث ختم ہونے کے بعد بغیر کسی قرارداد پیش ہونے کے باوجود صوبوں کی تقسیم پر بات کرنے کیلئے اجازت دی گئی ہے۔ میری نظر میں آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا اس وجہ سے ہم نے اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم صوبوں کی تقسیم کیخلاف نہیں ہیں لیکن آئین میں جو طریقہ کار موجود ہے اس کے مطابق صوبوں کی تقسیم ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ صوبہ کے حوالے سے خیبر پختونخواہ اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی ہے اگر اسمبلی اس قرارداد کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرتی ہے تو ہزارہ کو صوبہ کا درجہ دے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں امن آیا ہے تو ہزارہ میں کیوں امن نہیں چاہتے۔ پختونوں کو کسی نہ کسی طریقے سے آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔
اسفند یار ولی نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں جس جماعت کا ایک امیدوار بھی نہیں جیتا وہ صوبوں کی تقسیم کے بارے میں کیسے بات کرسکتی ہے۔ میں صرف ان سے یہی کہوں گا کہ ان کے جو عزائم ہیں ہم ان سے واقف ہیں اور ان کو کسی صورت پورا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ ملک کی پارلمانی تاریخ میں بغیر تحریک کے صوبوں کے قیام کے حوالے سے بحث شروع کروانا غیر آئینی تھا۔ اگر متعلقہ اسمبلیاں دو تہائی اکثریت سے قراردادیں منظور کروائیں تو پھر پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ہے اور اس معاملے پر سیاست چمکانے کی بجائے اتفاق رائے ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اے این پی آرٹیکل دوسو انتالیس میں ترمیم کی شدید مخالفت کرتی ہے کیونکہ صوبوں کا حق ہے کہ وہ اس حوالے سے پہلے رائے لیں اگر پنجاب اسمبلی سے پوچھے بغیر سرائیکی صوبے کا بل اسمبلی میں آیا تو اس کی مخالفت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ صوبے کا مطالبہ اس دن شروع ہوا جب صوبے کا نام پختونخواہ رکھا گیا اس کا مطلب ہے کہ انہیں پختون کے نام سے نفرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ میں ہندکو سے زیادہ پختون ہیں ان کا کیا بنے گا۔
Content from: http://www.dailyaaj.com.pk/?p=53596
0 comments:
Post a Comment