Home » » Abbottabad: 8 Martyred in Protest against Khayber Pukhtoonkhwa

Abbottabad: 8 Martyred in Protest against Khayber Pukhtoonkhwa

Written By Umair Ali Sarwar on Monday, April 12, 2010 | Monday, April 12, 2010

ایبٹ آباد، صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھے جانے کیخلاف پرتشدد مظاہروں میں 8 افراد جاں بحق، 2 خواتین سمیت 200 کے قریب افراد زخمی، کئی کی حالت نازک، زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں داخل کرا دیا گیا، پولیس کی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ اور شیلنگ، مظاہرین نے تھانہ کینٹ، پولیس کی متعدد گاڑیوں اور پولیس اہلکاروں کو لے جانیوالی ایدھی ایمبولینس کو آگ لگا دی
:ایبٹ آباد (تازہ ترین ۔12 اپریل ۔2010ء) صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھے جانے کے خلاف ایبٹ آباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہونیوالے پرتشدد مظاہروں میں 8 افراد جاں بحق اور دو خواتین سمیت دو سو کے قریب افراد زخمی ہوگئے جن میں سے کئی افراد کی حالت نازک بتائی جاتی ہے جبکہ زخمیوں کو ایبٹ آباد کے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل کردیا گیا ہے پولیس کی جانب سے براہ راست مظاہرین پر کی جانیوالی فائرنگ اور شدید شیلنگ کے جواب میں مشتعل مظاہرین نے تھانہ کینٹ ایبٹ آباد سمیت پولیس کی متعدد گاڑیوں اور پولیس اہلکاروں کو لے جانیوالی ایدھی ایمبولینس کی گاڑی کو بھی آگ لگا دی اور پورے شہر اور اس کے گردونواح کی گلیاں اور محلے جنگ کا منظر پیش کرتے رہے اور پولیس کی جانب سے بدترین شیلنگ اور فائرنگ کا جواب مظاہرین اینٹوں اور پتھروں سے دیتے رہے جبکہ پولیس کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود پختونخواہ نامنظور اور تحریک صوبہ ہزارہ کے قائد بابا سردار حیدر زمان خان نے تحریک کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ شدید شیلنگ کے باوجود شہر میں پختونخواہ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جبکہ ریلی کے شرکاء اپنے قائد کے ہمراہ خیبر پختونخواہ نامنظور اور ایک ہی نعرہ صوبہ ہزارہ کے نعرے بلند کرتے رہے اس کے علاوہ دیگر مقامات پر ہونیوالے مظاہروں میں نواز شریف اور سردار مہتاب مردہ باد کے نعروں کی گونج سنائی دیتی رہی اور دوسری جانب بار کلب ایبٹ آباد میں مسلم لیگ ن کی قیادت اپنا ورکرز کنونشن کرنے میں ناکام رہی اور اس کے عہدیداران اور کارکنان کی ایک مختصر تعداد واقعہ مسلم لیگ ن کے دفتر کے باہر بالکونی سے بھرپور عوامی احتجاج کا مشاہدہ کرنے تک ہی محدود رہی اور ان کے چند میٹر دور مظاہرین ٹائروں کو لکڑیوں کو آگ لگا کر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرواتے نظر آئے ، ایبٹ آباد میں اس تناؤ کا آغاز مسلم لیگ ن اور تحریک صوبہ ہزارہ کی جانب سے بار کلب گراؤنڈ اور فوارہ چوک میں جلوسوں کے اعلان سے ہوا اور انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد سے انتظامیہ نے گزشتہ رات ن لیگ کا سٹیج اکھاڑ دیا اور سوموار کے روز تحریک صوبہ ہزارہ کے کارکنان مختلف ٹولیوں کی شکل میں اپنے قائدین بابا سردار حیدر زمان خان ، وسیم خان جدون، نصیر خان جدون، سردار قیصر لطیف، پیر خان تنولی ایڈووکیٹ، سردار شیراز، سردار سعید ، سردار محمد یعقوب اور سعید مغل کی قیادت میں فوارہ چوک پہنچے جہاں پولیس نے ان مظاہرین کو روکنے کیلئے ان پر آنسو گیس کا استعمال شروع کردیا اور اسی طرح سپلائی (سکندر آباد) میں بھی مظاہرین پر پولیس کی جانب سے کی جانیوالی شیلنگ کے بعد شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال نہ ہونے کے باوجود ایبٹ آباد کے تاجروں نے اپنی دکانیں بند کردیں اور مظاہرین نے ایبٹ آباد کی مختلف شاہراؤں پر مختلف ٹولیوں کی شکل میں احتجاجی مظاہرے شروع کردیئے ، اس کے بعد اچانک پولیس حرکت میں آئی اور اس نے شہرکے تاجروں اور مظاہرین کو ٹارگٹ کرتے ہوئے شدید ترین شیلنگ کی اور یہ شیل لوگوں کے گھروں میں بھی گرے جس سے متعدد افراد کی حالت غیر ہوگئی اس کے بعد احتجاج میں ایسی شدت آئی کہ مشتعل مظاہرین نے پہلے تھانہ کینٹ ایبٹ آباد اور پولیس کی گاڑیوں پر شدید پتھراؤ کیا اور پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ کے جواب میں مظاہرین نے متحد ہو کر تھانہ کینٹ کو آگ لگا دی اوروہاں کھڑی پولیس کی گاڑیوں کو بھی اس کی نذر کیا اور ڈی ایچ کیو ہسپتال ایبٹ آباد کے باہر بھی پولیس کے ٹرک کو آگ لگانے کے علاوہ پولیس کے زخمی اہلکاروں کو لے جانیوالی ایدھی ایمبولینس کی گاڑی کو بھی آگ لگا دی جبکہ پولیس نے شہر کے مختلف مقامات پر مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی جس کا دو راہگیر خواتین اور مظاہرین سے ہٹ کر بھی کئی افراد نشانہ بنے اور شدید زخمی ہوئے اور اپنے گھروں کی چھتوں پر تمام اندوہناک مناظر دیکھنے والی خواتین بھی احتجاج کرتی نظر آئیں اور گھروں میں گیس کے شیلوں سے متاثر ہونے کے باوجود وہ ایک ہی نعرہ صوبہ ہزارہ کی صدائیں بلند کرتی نظر آئیں جبکہ پولیس نے گرفتار ہونیوالے متعدد افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور سکول کے معصوم بچوں جو کہ سکولوں سے واپس گھروں کو جارہے تھے انہیں گھسیٹتے رہے عوام کو تشدد کا نشانہ بنانے کیلئے باہر سے پولیس کے متعدد دستے منگوائے گئے تھے ، اسی طرح ایبٹ آباد کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا نفاذ کردیا گیا ایبٹ آباد کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں مظاہرین نے پورے ہسپتال پر قبضہ کئے رکھا اور زخمی پولیس اہلکاروں کو ہسپتال میں داخل نہیں ہونے دیا گیا جو زخمی پولیس اہلکار ہسپتال تک پہنچ بھی گئے انہیں مشتعل عوام نے زبردست مار پیٹ کر کے ہسپتال سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ ایبٹ آباد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں 73 زخمیوں کو شام پانچ بجے تک داخل کیا گیا جو مختلف وارڈز میں زیر علاج ہیں جبکہ مزید زخمیوں کو داخل کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے پورے ہسپتال میں جا بجا خون ہی خون بکھرا نظر آتا ہے اور ادویات کی بھی شدید قلت کے باعث زخمیوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے جبکہ ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد میں شام ساڑھے پانج بجے تک تیس سے زائد شدید زخمیوں کو شفٹ کیا گیا جن میں متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے کیونکہ پولیس نے انہیں براہ است سینے میں گولیاں ماری ہیں اسی طرح لاتعداد دیگر زخمی ایبٹ آباد کے دیگر پرائیویٹ اور دیگر سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں اور شام گئے آخری اطلاعات تک مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے جن میں زیادہ تر نوجوانہیں جن میں سے صرف تین کے نام معلوم ہوسکے ہیں ان میں زاہد ولد محمد فاروق ساکنہ ظفر مارکیٹ منگل، وقاص ولد سجاول ساکنہ توتنی اور شاہ نواز شامل ہیں چار افراد کی نعشیں ان کے لواحقین ڈی ایچ کیو ہسپتال سے لے گئے ہیں اور ایک شخص ایوب میڈیکل کمپلیکس میں زندگی کی بازی ہار گیا، دوسری جانب شام گئے تک ایبٹ آباد کی شاہراؤں پر شدید ترین احتجاج جاری رہا اور مظاہرین نے پہلے میر پور تھانہ کا گھیراؤ کرنے کے بعد سپلائی پولیس چوکی کا بھی گھیراؤ کیا اور پولیس ے خلاف سخت نعرے بازی کی اور سڑکوں پر موجود سائن بورڈز سے مختلف کمپنیوں کے اشتہارات کو بھی اتار کر آگ لگا دی اور فوارہ چوک ایبٹ آباد میں شام کو بھی مظاہرین جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس مظاہرے کی قیادت صوبہ ہزارہ کے قائدین ڈاکٹر اظہر جدون اور مشتاق احمد غنی اوردیگر نے کی ، اسی طرح ایبٹ آباد کے وکلاء نے بھی ایک منظم احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں پختونخواہ کی شدید مخالفت اور صوبہ ہزارہ کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جبکہ ایبٹ آباد شہر کے علاوہ اس کے گردونواح میں بھی ان واقعات کے خلاف شام گئے تک زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور شہر کی تمام سڑکوں پر جا بجا جلائے گئے ٹائر درخت اور بڑے بڑے پتھر پڑے ہیں اور چلنا تک محال ہے اور ایک سول نافرمانی کی سی کیفیت نظر آرہی ہے اور تمام مظاہرین ہزارہ ڈویژن اور ایبٹ آباد سول اور پولیس انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور اپنی تحریک کو ہر حال میں جاری رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔

0 comments: