Home » , » Peoples Party betrayed the Hazar-e-walls, Sooba Hazara Tehreek

Peoples Party betrayed the Hazar-e-walls, Sooba Hazara Tehreek

Written By Umair Ali Sarwar on Sunday, April 15, 2012 | Sunday, April 15, 2012

Peoples Party betrayed the Hazar-e-walls, Sooba Hazara Tehreek
ایبٹ آباد: پیپلزپارٹی نے ہزارے والوں سے غداری کی ہے۔ صدر اور وزیراعظم کے واضح اعلانات کے باجوود تاج حیدر کا ریسرچ ورک پیپر ان کے دوغلے پن کا ثبوت ہے۔ اور یہ ہزارے والوں کیخلاف کھلی سازش ہے۔صوبہ ہزارہ تحریک نے تاج حیدر کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کردیا‘ہماری جدوجہد صوبہ ہزارہ کے قیام تک جاری رہے گی: مشترکہ اعلامیہ تفصیلات کے مطابق صوبہ ہزارہ تحریک میں شامل سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں سابق وفاقی وزیر امان اللہ خان جدون، سردار محمد یوسف، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سردار محمد یعقوب، سابق صوبائی وزیر شہزادہ گستاسپ خان، ایم پی اے وجیہہ الزمان خان، سابق ایم پی اے زرگل خان، ایم کیوایم کے مقامی قائدین، ہزارہ قومی محاذ کے قاضی اظہر ایڈوکیٹ، ہزارہ عوامی اتحاد کے ولی محمد خان جدون، پرنس فضل حق کوہستانی، جے یو آئی کے سینیٹر سیّد ہدایت اللہ شاہ اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے اتوار کے روز امان اللہ خان جدون کی رہائشگاہ پر ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے ہزارہ میں گزشتہ کئی دھائیوں سے آواز اُٹھتی رہی ہے اور مختلف حکومتی ادوار میں لوگ عوامی احتجاج کی پاداش میں پابند سلاسل بھی ہوتے رہے ۔ اپریل 2010 ؁ء میں اس وقت اس آواز میں شدت پیدا ہوگئی جب تعصب اور لسانیت کی بنیاد پر صوبے کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھا گیا ہزارہ کے عوام احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے ۔ لسانی بنیاد پر صوبے کے نام کو قبول کرنا نامنطور کر دیا ۔ اس موقع پر صوبائی حکومت اور مقامی منتخب نمائندوں کی ملی بھگت سے نہتے اور بے گناہ احتجاجی ہزارے وال پر بدترین ریاستی دہشتگردی کرتے ہوئے پولیس نے گولیاں برسائیں اور 7 افراد کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا ۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک جائز اور آئینی کے حق کے حصول کی جدوجہد کی پاداش میں جبر کی یہ مثال کم ہی ملتی ہے ۔ اس سانحہ کے بعد ہزارہ کی عوام نے اپنی محرومیوں اور حق تلفیوں کی بناء پر الگ صوبے کے قیام کیلئے جدوجہد شروع کر دی ۔ ہزارہ کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں ، قبائل اور تنظیموں نے مل کر صوبہ ہزارہ تحریک کے پلیٹ فارم سے علیحدہ صوبے کے حصول کیلئے عملی جدوجہد کا اعلان کر دیا ۔ اور گذشتہ دو سالوں سے اس ضمن میں عوامی اور سیاسی سطح پر ہر ممکن جدوجہد جاری ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں ہزارہ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذید صوبوں کی تشکیل کی سوچ کو تقویت ملی ۔ سرائیگی بہاول پور، پوٹھوہار ، فاٹا صوبے بنانے کی آواز بلند ہونے لگی اور یہ آوازیں متعلقہ علاقے سے نکل کر پاکستان میں دانشوروں ، اہل قلم ، صحافی حضرات اور مفکرین کی بحث کا موضوع بنا ۔ اور پھر صوبائی اور قومی اسمبلی میں بھی اس موضوع کی بازگشت سنائی دیتی رہی اور سب نے دلائل کی بنیاد پر صوبہ ہزارہ کے قیام کو عوامی اور سیاسی ضرورت قرار دے کر ہزارہ صوبہ کے قیام پر زور دیا ۔ لاکھوں ہزارے وال کے احتجاجی مطالبے دانشوروں اور اہل قلم حضرات کی رائے اور سیاسی فورمز پر بحث کے دوران متعدد بار صدر پاکستان ، وزیراعظم پاکستان اور اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے وعدے کئے ۔ مگر پھر اچانک موجودہ حکومت نے حسب روایت یو ٹرن لیتے ہوئے ایک نام نہاد کمیٹی کی رپورٹ اور ایک عام فہم جانب دار سیاسی رکھنے والے تاج حیدر کا ریسرچ پیپر منظر عام پر لاکر پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین اپنی روایتی سوچ کے تحت نہ صرف ہزارہ کی عوام کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے بلکہ شہدائے ہزارہ کی قربانیوں اور اُن کے خون کی بنیاد پر ملکی سطح پر چلنے والی صوبہ ہزارہ تحریک کی جدوجہد کو کیش کراتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کیلئے سرائیکی صوبہ کی تشکیل چاہتی ہے ۔ قائدین نے کہا کہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ہزارے وال حقیقی معنوں میں محب الوطن پاکستانی ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حقوق سے محروم طبقات آئین پاکستان میں درج حقوق کے تحت علیحدہ صوبے کا مطالبہ اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ نام نہاد ریسرچ پیپر میں ہزارہ صوبہ کو لسانی مطالبہ قرار دیتے ہوئے اسے خوشحال خطہ قرار دیا گیا ۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ دراصل ہزارہ ایک خطے کا نام ہے جو 1750 ؁ء میں صوبہ تھا جسے 1904 ؁ء میں تقسیم کر کے کچھ حصہ پنجاب اور کچھ حصہ سرحد کی آبادی پوری کرنے کیلئے NWFP کیساتھ لگایا گیا ۔ ہزارہ نہ لسانی نام ہے نہ ہی کسی قوم کا نام ہے ۔ بلکہ یہ مختلف قبائل پر آباد ایک علاقہ ہے جس میں پشتو ، ہندکو ، گوجری اور کوہستانی زبانیں بولی جاتی ہے ۔ سرحد کا 70% بجٹ ہزارہ دیتا ہے ۔ جبکہ واپسی اس میں سے ہزارہ کو نمک کے برابر بھی نہیں ملتا ۔ ترقیاتی عمل اور نوکریوں کے عمل سے محروم کیا گیا ہے ۔ ہزارہ کو کراچی کیساتھ ملا کر مہاجر صوبے کا شوشہ یا وال چاکنگ کی سازش کی گئی تاکہ ایم کیو ایم کو بلیک میل کر کے صوبے کے کاز سے باز رکھا جائے ۔ کیونکہ ایم کیو ایم نے صوبہ ہزارہ کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے ۔ جبکہ سندھ کی تقسیم کی ایم کیو ایم بار بار تردید کر چکی ہے ۔ سرائیکی صوبہ کے اعلان نے ہزارہ والوں کو مجبور کر دیا ہے اور ہمیں دیوار کیساتھ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ آج ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہزارے وال اپنے مطالبے کو نظر انداز کرنے کے کسی فیصلے کو نہیں مانیں گے ۔ اور اگلے 4 دن کے اندر صوبہ ہزارہ تحریک کی سپریم کونسل آل پارٹیز کانفرنس بلا کر باہمی مشاورت سے حتمی اقدام کا فیصلہ کرے گی جوکہ صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا

0 comments: